’میں مسلسل کام کرتی چلی جا رہی تھی۔ مجھے اپنی کمپنی سے عشق ہو گیا تھا۔ میں اسے اپنی سب سے بڑی محبت کہتی ہوں، کیونکہ یہ میرے لیے بہت ہی زیادہ اہم بن چکی ہے۔‘

https://www.revenuehits.com/lps/pubref/?ref=@RH@yFrunQv_mzw-z-eHW6TrQFgCNN7_AvfT
’میں مسلسل کام کرتی چلی جا رہی تھی۔ مجھے اپنی کمپنی سے عشق ہو گیا تھا۔ میں اسے اپنی سب سے بڑی محبت کہتی ہوں، کیونکہ یہ میرے لیے بہت ہی زیادہ اہم بن چکی ہے۔‘



’میں مسلسل کام کرتی چلی جا رہی تھی۔ مجھے اپنی کمپنی سے عشق ہو گیا تھا۔ میں اسے اپنی سب سے بڑی محبت کہتی ہوں، کیونکہ یہ میرے لیے بہت ہی زیادہ اہم بن چکی ہے۔‘
’میرا وجود میرے کام میں لپٹتا چلا جا رہا تھا۔ اگر میں وہ نوکری نہیں کر رہی ہوتی تو مجھے پتا ہی نہ ہوتا کہ میں کون ہوں۔‘
https://www.revenuehits.com/lps/pubref/?ref=@RH@yFrunQv_mzw-z-eHW6TrQFgCNN7_AvfT 2017 میں ایمبر کوسٹر ایک ٹیکنالوجی کمپنی میں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔ ان کی عمر تیس برس سے کم تھی اور وہ کام کے غرض سے دنیا بھر کا سفر کرتی رہی تھیں۔
’کاغذ پر میری زندگی بہت زبردست لگتی تھی۔‘
لیکن ان کی زندگی میں سب کچھ ٹھیک نہیں تھا اور وہ بار بار ملنے والے اشاروں کو نظر انداز کر رہی تھیں۔
’میں کہتی تھی کہ میں تھکن کے مسلسل احساس سے تھک چکی ہوں۔‘


تھکن اور متلی کے علاوہ انھیں مائگرین، پیٹ میں شدید درد، جلد پر خراشوں اور ایکزیما جیسے مسائل در پیش تھے۔ ڈاکٹر ان کے مرض کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ لندن کی رہائشی ایمبر نے ٹھیک ہونے کے لیے دو ہفتے کی چھٹی لے لی۔

Comments

Popular posts from this blog

’ففٹی شیڈز آف صباقمر‘،معروف پاکستانی اداکارہ کی ایسی تصویر کے مداحوں نے دل تھام لئے

How COVID-19 is adding to the misery in occupied Kashmir after India’s clampdown: report

کورونا وائرس: پہلے سے مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کورونا وائرس سے کیسے بچیں.؟